رنگ تہذیب و تمدن کے شناسا ہم بھی ہیں
صورت آئینہ مرہون تماشا ہم بھی ہیں

Ø+ال Ùˆ مستقبل کا کیا ہم Ú©Ùˆ سبق دیتے ہیں
اس قدر تو واقف امروز و فردا ہم بھی ہیں

با دل نا خواستہ ہنستے ہیں دنیا کے لیے
ورنہ یہ سچ ہے ......پشیماں ہم بھی ہیں

کچھ سفینے ہیں کہ طوفاں سے ہے جن کی ساز باز
دیکھنے والوں میں اک بیرون دریا ہم بھی ہیں

دیکھنا ہے تو دیکھ لو اٹھتی ہوئی Ù…Ø+فل کا رنگ
صبØ+ Ú©Û’ بجھتے چراغوں کا سنبھالا ہم بھی ہیں

کاغذی ملبوس میں ابھری ہے ہر Ø´Ú©Ù„ Ø+یات
ریت کی چادر پہ اک نقش کف پا ہم بھی ہیں

جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں آثار قدیم
پی گئیں جس کو گزر گاہیں وہ دریا ہم بھی ہیں